حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین سید مختار حسین جعفری نے اپنے ایک بیان میں معاشرے میں رائج طویل سوگ اور غیر ضروری تعزیتی رسومات پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اہلِ بیتِ اطہارؑ کی تعلیمات کے مطابق اگر کسی کے یہاں موت واقع ہو جائے تو اس کے اہلِ خانہ کے پاس تعزیت کے لیے جانا اور سوگ منانا صرف تین (۳) دن تک جائز ہے۔ اس کے بعد محض سوگ کی غرض سے متوفی کے گھر جانا، گھنٹوں بیٹھے رہنا اور غم کو تازہ کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ ہے، اگرچہ بعض علاقوں میں یہ عمل رائج ہے۔
حجۃ الاسلام و المسلمین سید مختار حسین جعفری نے متوفی کے ورثا اور تعزیت کے لیے آنے والوں دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وارثوں کو بھی اس امر کا خیال رکھنا چاہیے اور آنے والوں کو بھی اس مسئلے کو سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے امام جعفر صادقؑ کا ارشاد نقل کرتے ہوئے کہا: «التعزیة ثلاثة أیام» یعنی تعزیت اور تسلیت صرف تین دن تک جائز ہے، اس سے زیادہ نہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ بیوی کی عدتِ وفات اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔ شوہر کے انتقال پر بیوی چار ماہ دس دن عدت میں رہے گی، جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت 234 میں حکم موجود ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پورے عرصے روتی رہے، بلکہ اس سے مراد زینت ترک کرنا، نکاح نہ کرنا اور مخصوص شرعی آداب کی پابندی کرنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر خدا نخواستہ بیوی کا انتقال ہو جائے تو شوہر پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا لازم نہیں ہے۔ اسی طرح انہوں نے واضح کیا کہ اس حکم کو غمِ حسینؑ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
حجۃ الاسلام و المسلمین سید مختار حسین جعفری نے امام جعفر صادقؑ کا ایک اور قول بیان کرتے ہوئے کہا: «کُرِهَ تجدیدُ الحُزن بعد ثلاثة أیام» یعنی عام انسان کے لیے تین دن کے بعد غم کو تازہ کرنا مکروہ ہے۔ انہوں نے یہ روایت بھی نقل کی: قال أبو عبداللهؑ: «الطعام يُصنع لأهل الميت ثلاثة أیام» یعنی جس گھر میں موت ہو جائے، اس کے اہلِ خانہ کے لیے تین دن تک کھانا تیار کیا جائے۔
آخر میں انہوں نے بعض مقامی رسومات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے علاقوں میں پندرہ (۱۵) یا چالیس (۴۰) دن تک راتوں میں میت کے گھر جا کر اہلِ خانہ کو رلایا جاتا ہے، نہ خود سونے دیا جاتا ہے اور نہ ہی متاثرہ خاندان کو آرام کرنے دیا جاتا ہے، جبکہ یہ طرزِ عمل نہ پسندیدہ ہے اور نہ مطلوب۔ انہوں نے کہا کہ بعید نہیں کہ اس طرح کے اعمال سے مرنے والے کو بھی اذیت پہنچتی ہو۔ ایصالِ ثواب کے اور بھی کئی شرعی و بہتر طریقے موجود ہیں، جبکہ جو کچھ ہمارے علاقوں میں رائج ہے وہ ایصالِ ثواب کا درست طریقہ نہیں ہے۔









آپ کا تبصرہ